Monday, 29 July 2013

گرل فرینڈ girl friend


________

آپ کسی کی گرل فرینڈ ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں اور اگر نہیں تو پھر وہ خوش قسمت ہے

ہمارا مشاہدہ ہے کہ گرل فرینڈ بنانے کے بڑے فائدے ہیں۔ بندہ بے شک ساری زندگی گھر میں کدو گوشت کھاتا رہے
لیکن جیسے ہی اس کی کوئی گرل فرینڈ بنتی ہے، وہ اچانک پیزا کھانے لگتا ہے، کپڑے استری کرنے لگتا ہے اور ہر چوتھے روز نہانے بھی لگتا ہے۔

یہی حال لڑکی کا بھی ہوتا ہے۔ آپ نے آج تک کسی ایسی گرل فرینڈ کے بارے میں نہیں سنا ہوگا جس نے اپنے بوائے فرینڈ سے نان چھولے کھانے کی فرمائش کی ہو۔ لڑکیوں کو پتا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی فرمائش کی تو بیٹھے بٹھائے ڈی گریڈ ہو جا ئیں گی

لہذا یہ اسٹارٹ ہی زنگر برگر سے لیتی ہیں۔ یہ کبھی کبھی خود بھی لڑکے کو فون کرلیتی ہیں لیکن ایک منٹ کی گفتگو کے بعد ہی اسے احتیاطاَ بتا دیتی ہیں کہ اگر میرا فون بند ہو جائے تو پلیز تم کرلینا۔ ٹھیک ایک منٹ بعد یہ کوئی بات کرتے کرتے اچانک فون بند کردیتی ہیں، لڑکا فوراَ رنگ بیک کرتا ہے اور پندرہ منٹ میں اپنا سو والا کارڈ ختم کروا بیٹھتا ہے

اچھی گرل فرینڈ لڑکے کو کافی ساری احتیاطی "تدابیر" بھی سمجھا دیتی ہے۔ مثلاَ یہ کہ جب بھی مجھ سے بات کرنی ہو پہلے کوئی عام سا لطیفہ فارورڈ کرنا، اگر میری طرف سے جواب نہ آئے تو سمجھ جانا میں "میلاد" میں ہوں۔ اسی طرح اگر کبھی میری بجائے گھر میں سے کوئی اور فون اٹھا لے تو فون بند نہ کردینا بلکہ اطمینان سے کہنا، کیا یہ رشید پلمبر کا نمبر ہے؟ اور اگر کبھی میں بات کرتے کرتے اچانک فون بند کردوں تو مجھے فوراَ دوبارہ فون نہ کرنا، ہاں اگر مسڈ کال دوں تو پھر بے شک کرلینا۔

ایسی گرل فرینڈز ہمیشہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ وہ صرف آپ سے ہی بات کرتی ہیں، ورنہ ان کے پاس کسی کیلئے کوئی ٹیم نہیں۔ ایسے میں اگر آپ کبھی رات کے دو بجے ان کو چیک کرنے کیلئے فون کریں تو اکثر کے فون سے یہی آواز آئے گی "آپ کا مطلوبہ نمبر پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے مصروف ہے" اگر آپ بعد میں شکوہٰ کریں کہ اتنی رات کو کس سے بات ہورہی تھی تو اس کا جواب دینے کی بجائے فوراَ رونی صورت بنا کر کہیں گی "شکیل! تم مجھ پر شک کر رہے ہو، اپنی گڑیا پر؟؟؟"
ظاہری بات ہے شکیل صاحب اس جذباتی حملے سے کہاں محفوظ رہ سکتے ہیں، لہذا فوراَ گھگھیا کر کہتے ہیں "کیسی بات کررہی ہو جان، میں اپنے باپ پر تو شک کرسکتا ہوں، تم پر نہیں" لیکن یہ الٹا شکیل پر چڑھ دوڑتی ہیں، فوراَ روتے ہوئے کہیں گی "نہیں نہیں نہیں! تم نے مجھ پر شک کیا ہے، میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرا شکیل اتنا گھٹیا بھی ہوسکتا ہے، تم نے میرے اعتماد کا خون کردیا ہے، پلیز مجھے کہیں سے زہر لادو، میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتی" اور شکیل صاحب کو فون کی بات بھول کر اپنی فکر پڑ جاتی ہے

ہمارا مشورہ یہ ہے کہ گرل فرینڈ وہ بنانی چاہیئے جو کم ازکم آپ جتنا ضرور پڑھی ہوئی ہو

ورنہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایم اے پاس لڑکے کی میٹرک پاس گرل فرینڈ اکثر اس بات پر ناراض ہوکر بیٹھ جاتی ہے کہ "تم نے مجھے موبائل میں رنگ ٹونیں کیوں نہیں بھروا کے دیں

اسی طرح وہ گرل فرینڈ جو آپ سے تعلیم میں زیادہ ہو، وہ ایک اور قسم کی مصیبت بن جاتی ہے۔ فرض کیا کہ لڑکا میٹرک ہے اور گرل فرینڈ ایم اے ہے تو اس کا ہر دن یہی شکوٰہ ہوگا "خدا کیلئے نذیر، کبھی تو ڈھنگ کے کپڑے پہن آیا کرو، کوٹ پنٹ کے نیچے جوگر کون پہنتا ہے؟"
اب بھلا نذیر کیسے بتائے کہ اس نے جوگر پہلی دفعہ نہیں پہنے، کوٹ پنٹ پہلی دفعہ پہنا ہے۔

(اقتباس: گل نوخیز اختر کے کالم "گرل فرینڈ"سے)

*****************************************************

Sunday, 28 July 2013

waseela وسیلہ


mazar ko sajda krnay pr sunnion ka aqeeda kya hai ?



boy friends urdu بوائے فرینڈز








بوائے فرینڈز بڑے اعلیٰ قسم کے لوگ ہوتے ہیں یہ جس لڑکی سے سچے پیار کی قسمیں کھاتے ہیں شام کو اسی کی تصویر موبائل پر دوستوں کو دکھا کر فخر سے کہتے ہیں " بچی چیک کر " انہوں نے ہر لڑکی کا نام گڑیا رکھا ہوتا ہے تاکہ کسی بھی قسم کی جذباتی کفیت میں کسی اور لڑکی کا نام منہ سے نہ نکل جائے ۔ ان بوائے فرینڈز کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح گرل فرینڈ کی سہیلی کا موبائل نمبر لیا جائے اگر نمبر مل جائے تو چار دن بعد سہیلی کی سہیلی کا نمبر تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ایسے بوائے فرینڈز گھر میں اپنی والدہ کو بےبے اور والد صاحب کو ابا کہتے ہیں لیکن لڑکی کے سامنے مام ڈیڈ سے کم پر بات نہیں کرتے یہ ہر روز گرل فرینڈ کو فون پر بتاتے ہیں کہ کوئی خوبصورت اور امیر لڑکی ہاتھ دھو کر انکے پیچھے پڑ گئی ہے اور بلا وجہ فون کرکے تنگ کرتی ہے یقین کرو گڑیا میں نے اسے بہت دفعہ ڈانٹا ہے لیکن وہ باز نہیں آتی امریکہ میں رہتی ہے اور ڈاکٹر ہے چھٹیوں پر پاکستان آئی ہوئی ہے پتا نہیں میرے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے ، آگے سے گڑیا اگر اس کا نمبر مانگ لے تو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ پتہ نہیں اس نے کیسا نمبر لیا ہوا ہے جو میرے موبائل سکرین پر شو نہیں ہوتا گڑیا بےچاری ساری رات سوچتی رہتی ہے کہ اس امیر زادی کا فون میری موجودگی میں کیوں نہیں آتا بوائے فرینڈز ایک جملہ بڑے تواتر سے بولتے ہیں " گڑیا مجھے کوٹھی، پیسے اور کاروں سے کوئی دلچسپی نہیں میں چاہوں تو ایک دن میں کروڑوں کما سکتا ہوں حالانکہ پیسے سے انکی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر پندرہ دن بعد تین سو کا آکڑہ اس امید پرضرور لگاتے ہیں کہ شاید چند ہزار انعام لگ جائے ایسے بوائے فرینڈز ہر گھنٹے بعد گڑیا کا ہاتھ پکڑ کر لمبی لمبی ضرور چھوڑتے ہیں کہ دل کرتا ہے تمہارا ہاتھ پکڑ کر سنگا پور نکل جاؤ حالانکہ خدا گواہ ہے کہ انکے پاس سنگاپور تو کیا خان پور تک کا کرایہ بھی نہیں ہوتا یہ چاہتے ہیں کہ لڑکی پر رعب بھی پڑ جائے اور خرچہ بھی نہ ہو اسی لیے لڑکی کو کھانا کھلانے لے جائیں تو ہوٹل کے قریب پہنچ کر سر پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ اوہ شٹ یار اے ٹی ایم تو میں ہی بھول آیا اب کیا کریں ؟ چلو سٹہ کھاتے ہیں ۔ جبکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے پاس اے ٹی ایم تو کیا بنک اکاؤنٹ تک نہیں ہوتا
مختلف سٹیٹس کے بوائے فرینڈز بھی مختلف ہوتے ہیں انکی فرمائشیں بھی انکے کلچر کے مطابق ہوتی ہیں امیر بوائے فرینڈز ہر دوسرے روز لڑکی سے یہی فرمائش کرتا نظر آئے گا کہ یار چلو تو سہی وہاں سب اپنے یار دوست ہی ہوتے ہیں غریب بوائے فرینڈ اپنے ہی انداز میں فرمائش کرتا ہے پلیز عاشی تم اپنے کار والے کزن سے دور رہا کرو ایسے لوگ بھیڑیے ہوتے ہیں بوائے فرینڈز کو یہ بھی زعم ہوتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی لڑکیوں میں بہت مقبول ہیں اس بات کا اظہار وہ اکثر اپنی گرل فرینڈ سے کرتے رہتے ہیں " عاشی یقین کرو میرے بڑے ماموں کی چھوٹی بیٹی جو انجینیر بن رہی ہے مجھ میں بہت انٹرسٹد ہے میں جب بھی انکے گھر جاتا ہوں میرے اردگرد ہی گھومتی رہتی ہے اور میرے لیے بھاگ بھاگ کر چیزیں لاتی ہے ، دو چار دفعہ تو خودکشی کی دھمکی بھی دے چکی ہے لیکن میں اسے یہی سمجھاتا ہوں کہ یہ بری بات ہے ، اب عاشی بے چاری کو کیا پتہ کہ انکے ماموں کے تو صرف تین بیٹے ہیں
ایسے بوائے فرینڈز نے ہر لڑکی کو شادی کا جھانسا دے رکھا ہوتا ہے تاہم جب شادی ہو جاتی ہے تو رونی صورت بنا کر سارا ملبہ ماں پر ڈال دیتے ہیں اور بوکھلاہٹ میں یہ بھی نہیں سوچتے کہ کیا کہہ رہے ہیں "عاشی یقین کرو میں بہت مجبور ہوگیا تھا میری ماں نے اپنی پگ میرے قدموں میں رکھ دی تھی تو میں کیا کرتا : میں لڑکوں کی رگ رگ سے واقف ہوں یہ بڑی چیز ہوتی ہیں ، چاہے تھیٹر میں نرگس کا ڈانس دیکھ رہے ہو لیکن جیسے ہی گرل فرینڈ کی کال آجائے فورا" کاٹ کر میسج کر دیتے ہیں کہ جان ایک جنازے میں آیا ہوا ہوں بعد میں بات کروں گا
ایسے بوائے فرینڈز کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا ہے ، لڑکی اگر پوچھے کہ کل تو تم نے کہا تھا کہ نئی گاڑی لینے لگا ہوں تو فورا" لاپرواہی سے کہیں گے گاڑی کا کوئی مسلئہ نہیں وہ تو میں آج لے لوں لیکن جو مزہ سکوٹر میں ہے وہ گاڑی میں کہاں ۔ اس قسم کے بوائے فرینڈز پہلے بڑی معصومیت سے لڑکی کو اپنے سابقہ افیئرز کے بارے میں بتا دیتے ہیں پھر مکاری سے لڑکی کو بھی آمادہ کرلیتے ہیں کہ وہ بھی اپنا بتائے لڑکی بیچاری کچھ کہہ بیٹھے تو سمجھو پھر گئی کام سے
ان بوائے فرینڈز کو نئی نئی شرٹس پہننے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے بڑے عامیانہ انداز میں لڑکی کو بتائیں گے کہ جب تک ہفتے میں levi's کی دو شرٹس نہ خرید لوں چین ہی نہیں آتا حالانکہ انکی اکثر شرٹس تب بنتی ہیں جب ابا کی دھوتی میں بُر آنے لگے ۔ یہ اکثر لڑکی کے ساتھ ڈیٹ پر جاتے ہوئے ٹی روز پرفیوم لگا لیتے ہیں چاہے اس سے لڑکی آدھے رستے میں ہی بے ہوش ہو جائے
سنہرے خواب دکھانا بھی ان بوائے فرینڈز پر ختم ہوتا ہے ٹوٹے ہوئے کلچ والی موٹر سائیکل میں پچاس روپے کا پٹرول ڈلوا کر لڑکی کو سیر کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ عاشی میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے بزنس کی ایک برانچ کینیڈا بھی کھول لوں اور عاشی خوشی سے جھوم اٹھتی ہے تاہم بعد میں سارا رستہ سوچتی رہتی ہے کہ کیا کینیڈا میں بھی قلندری دال چاول بک سکتے ہیں یہ بوائے فرینڈز ہر دو منٹ بعد لڑکی کو یہ بھی ضرور باور کرواتے ہیں کہ جان اگر مجھ سے دل بھر جائے تو ایک اشارہ کردینا ساری عمر اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا جبکہ حقیت یہ ہوتی ہے کہ لڑکی ایک اشارہ تو کیا سو جوتیاں بھی مار لے تو بھی پیچھا نہیں چھوڑتے ۔ یہ لڑکیوں کے محفل میں جان بوجھ کر پامسٹری کی باتیں چھیڑ لیتے ہیں لڑکیاں تھوڑی سے توجہ دیں تو بڑی بے نیازی سے کہتے ہیں کہ نہیں نہیں میں یہ کام بہت عرصہ ہوا چھوڑ چکا ہوں اس کے ٹھیک دس منٹ بعد کسی لڑکی کا ہاتھ تھامے بڑے انہماک سے دیکھ کر اسے بتا رہے ہوتے ہیں کہ آپ زندگی میں ایک دفعہ بہت بیمار ہوئی تھی
بوائے فرینڈز نے زندگی میں خود چاہے کسی فقیر کو چونی تک نہ دی ہو لیکن لڑکی ساتھ ہو تو ہر فقیر کو دس کا نوٹ پکڑا دیتے ہیں یہ لڑکی سے کبھی نہیں کہتے کہ فلاں کتاب خرید لو بہت اچھی ہے انکی ایک ہی فرمائش ہوتی ہے کہ پلیز عاشی اب ویب کیم لے بھی لو نا۔ اگرچہ عاشی کے پاس آل ریڈی ویب کیم ہوتا ہے لیکن وہ بتانے کا رسک نہیں لے سکتی ۔ اس قسم کے بوائے فرینڈز کو ہر وہ لڑکی پسند ہوتی ہے جو زندہ ہو اور سانس لیتی ہو
قیامت کے روز جب یہ بوائے فرینڈز اٹھیں گے تو مجھے یقین ہے کہ انکے نامہ عشق میں دس بیس چنگڑیاں بھی شامل ہونگی ۔ میں کل ڈکشنری میں بوائے فرینڈز کا مطلب تلاش کر رہا تھا لغاتِ عاشقیہ کے مطابق بوائے فرینڈز کو اردو میں چپڑقناطیہ اور پنجابی میں چوّل کہتے ہیں یہ جان کر مجھے بہت مسرت ہوئی کہ مجھے کسی لڑکی نے اس نام سے نہیں پکارا اللہ کا شکر ہے جو بھی بلاتی ہے پورے احترام سے بغلول کہہ کر بلاتی ہے یہ ہوتی ہے دل سے عزت

Friday, 26 July 2013

ISI Pakistan Army


frog مینڈک


ایک عورت گالف کھیل رہی تھی کہ ایک ہٹ کے بعد اس کی گیند قریبی جنگل میں‌ جا گری، بال ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ جھاڑیوں میں پہنچ گئی جہاں گیند پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ادھر ایک مینڈک کانٹے دار جھاڑی میں پھنسا ہوا ہے۔ مینڈک نے عورت کو دیکھ کر کہا، خاتون اگر آپ مجھے ان کانٹوں سے نجات دلا دیں گی تو میں آپ کی تین خواہشات پوری کروں گا۔ یہ سن کر خاتون نے فوراً ہاتھ بڑھا کر مینڈک کو کانٹوں سے نجات دلا دی۔

مینڈک نے کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں‌ کہ میں‌ آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔

خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔

میری پہلے خواہش ہے کہ میں‌ دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔

دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر آپ سے بھی دس گنا امیر ہو جائے گا؟ خاتون نے کہا کوئی مسئلہ نہیں اس کی دولت یا میری، ایک ہی بات ہے۔ مینڈک کا منتر اور وہ خاتون شوں کر کے امیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی خاتون آپ کی تیسری خواہش؟ مینڈک نے پوچھا؟

مجھے ایک ہلکا سا دل کا دورہ یعنی ہارٹ اٹیک ہو جائے۔

اس کہانی کا سبق:‌ ’’خواتین بہت چالاک ہوتی ہیں، ان سے زیادہ ہوشیاری اچھی نہیں‘‘
.
.
.

خواتین پڑھنے والیوں کے لیے: یہ لطیفہ ختم - اب آپ آرام سے اس سے مزے لیں اور بس۔۔۔۔۔۔
.

حضرات آپ آگے پڑھیں۔۔۔۔ آپ کے لیے کچھ اور ہے آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی جناب - خاتون کے شوہر کو خاتون کے مقابلے میں دس گنا ہلکا ہارٹ اٹیک ہوا۔

اس کہانی کا سبق: ’’خواتین خود کو بہت عقلمند سمجھتی ہیں حالانکہ ایسا ہے نہیں، انہیں یہ سمجھتے رہنے دیں اور محظوظ ہونے دیں‘‘

Wednesday, 24 July 2013

Pak army shoes فوجیوں کے بوٹ


کھجور کا درخت


سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجورکا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔

مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔ ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔ ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟ اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔

ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔ ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔ بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟ ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔ ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا. ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے

Tuesday, 23 July 2013

aik ajeeb o gareeb khat ( letter )


توجہ


ایک متمول کاروباری شخص اپنی نئی جیگوار کار پر سوار سڑک پر رواں دواں تھا کہ دائیں طرف سے ایک بڑا سا پتھر اُسکی کار کو آ ٹکرایا۔ اُس شخص نے کار روک کر ایک طرف کھڑی کی اور تیزی سے نیچے اُتر کر کار کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھنا چاہا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ پتھر مارا کس نے تھا!           پتھر لگنے والی سمت میں اُسکی نظر گلی کی نکڑ پر کھڑے ایک لڑکے پر پڑی جس کے چہرے پر خوف اور تشویش عیاں تھی۔ آدمی بھاگ کر لڑکے کی طرف لپکا اور اُسکی گردن کو مضبوطی سے دبوچ کر دیوار پر لگاتے ہوئے پوچھا؛ اے جاہل لڑکے، تو نے میری کار کو پتھر کیوں مارا ہے؟ جانتے ہو تجھے اور تیرے باپ کو اِسکی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ لڑکے نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے اُس آدمی کو دیکھتے ہوئے بولا؛ جناب میں نے جو کُچھ کیا ہے اُسکا مجھے افسوس ہے۔ مگر میرے پاس اسکے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ میں کافی دیر سے یہاں پر کھڑا ہو کر گزرنے والے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی بھی رُک کر میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ لڑکے نے آدمی کو گلی کے وسط میں گرے پڑے ایک بچے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے بتایا؛ وہ میرا بھائی ہے جو فالج کی وجہ سے معذور اور چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔ میں اِسے پہیوں والی کُرسی پر بِٹھا کر لا رہا تھا کہ سڑک پر پڑے ایک چھوٹے گڑھے میں پہیہ اٹکنے سے کُرسی کا توازن بگڑا ا ور وہ نیچے گر گیا۔ میں نے کوشش تو بہت کی ہے مگر اتنا چھوٹا ہوں کہ اُسے نہیں اُٹھا سکا۔ میں آپکی منت کرتا ہوں کہ اُسے اُٹھانے میں میری مدد کیجیئے ۔ میرے بھائی کو گرے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے اِسلئے اب تو مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے۔۔۔ اِس کے بعد آپ کار کو پتھر مارنے کے جُرم میں میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں گے میں حاضر ہونگا۔ آدمی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، فورا اُس معذور لڑکے کی طرف لپکا، اُسے اُٹھا کر کرسی پر بٹھایا، جیب میں سے اپنا رومال نکال کر لڑکے کا منہ صاف کیا، اور پھر اُسی رومال کو پھاڑ کر ، لڑکے کو گڑھے میں گر کر لگنے والوں چوٹوں پر پٹی کی۔۔

اسکے بعد لڑکے نے آدمی سے پوچھا؛ جی جناب، آپ اپنی کار کے نقصان کے بدلہ میں میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟

آدمی نے مختصر سا جواب دیا؛ کچھ بھی نہیں بیٹے، مجھے کار پر لگنے والی چوٹ کا کوئی افسوس نہیں ہے۔

آدمی اُدھر سے چلا تو گیا مگر کار کی مرمت کیلئے کسی ورکشاپ کی طرف نہیں، کار پر لگا ہوا نشان تو اُس نے اِس واقعہ کی یادگار کے طور پر ویسے ہی رہنے دیا تھا، اِس انتظار کے ساتھ کہ شاید کوئی اور مجبور انسان اُس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اُسے ایک پتھر ہی مار دے۔

Monday, 22 July 2013

انگور اور شراب



انگور اور شراب:
------------------
فرانس میں کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نےایک ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔ اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔

اتفاق سے اُن کی نشست کمشنر کے بالکل سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جب کہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا۔

اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟ شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنی ناک سے کھا رہا ہوں؟ کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟

شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟ شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔ کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُس کی بیوی اور بائیں طرف اُس کی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دین داری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لیے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طم طراق سے اپنے لیے، اپنی بیوی اور بیٹی کے لیے گلاسوں میں اُنڈیلی۔

اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟ شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں۔ کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے! ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورت حال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔

مگر اس شیخ صاحب کے نہ تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نہ ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔ کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے

شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟ مصنف لکھتا ہے کہ اس کے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

(کتاب شوام ظرفاء)

Muzammil

Sunday, 21 July 2013

ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﮐﻮﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﻘﺪﻡ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﻮﺍﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ ﻧﮧ ﮨﻮ


ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﮨﮯ، ﮐﭽﮫ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺫﮐﺮ ﻭ ﺍﺫﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﮨﯿﮟ، ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ،ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺨﺘﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻘﻮﺵ ....
ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ” ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ“ ﻣﯿﮟ
ﻣﻔﻠﺲ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﺯﺩﮦ ﮨﻮﮞ۔ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ
ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ، ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻤﺒﯿﺮ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ”ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﺁﺅ “ ﻭﮦ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺟﺎﺗﺎ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ
ﻗﺴﻢ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺣﻖ ﺩﮮ ﮐﺮ
ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺟﺲ
ﺑﺎﺑﺮﮐﺖ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻓﻼﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﻄﮩﺮﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﺐ
ﺍﺯﻭﺍﺝ ﻣﻄﮩﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮩﯽ
ﮨﮯ۔ ” ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﮐﻮ ﺣﻖ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ
ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ “۔
ﻧﻮﻭﺍﺭﺩ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﺪﻧﯽ ﮨﮯ، ﺍﻓﻼﺱ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﻗﮧ ﮐﺸﯽ ﺳﮯ
ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺍﺱ ﭘﺎﮎ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ
ﺗﻨﮓ ﺩﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺘﺎﺟﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻠﺠﺎ ﻭ ﻣﺎﻭﯼٰ ﮨﮯ، ﺍﺱ
ﺗﺎﺟﺪﺍﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺑﺲ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ
ﻧﺎﻡ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺗﻨﯽ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ
ﺗﻮ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯽ، ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﯼ
ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﮐﺎ ﺩﻭﺩﮪ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ ﺑﭽﮯ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ
ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ
ﭘﮭﯿﻼﺋﮯ، ﺟﻦ ﮐﺎ ﺟﻮﺩﻭﮐﺮﻡ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮯ ﭘﺎﯾﺎﮞ ﮨﮯ،
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻓﯿﺾ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﮐﭩﮭﻦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ،
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﭘﺮ ﺷﺮﻡ ﺁﻧﮯ
ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ
ﮨﮯ، ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺳﮯ ﺁﻗﺎﺋﮯ ﻧﺎﻣﺪﺍﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ
ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
”ﺁﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﻣﯿﺰﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ؟“ ﺍﺑﻮ
ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ”ﺍﮮ
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ“ ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻡ ﺳﻠﯿﻢ
ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ” ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ؟
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺋﮯ
ﮨﯿﮟ“ ۔ ﺍﻡ ﺳﻠﯿﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ” ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ“ ۔
ﺍﺑﻮ ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ” ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﺩﻭ ﺍﻭﺭ
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭼﻦ ﮐﺮ ﭼﺮﺍﻍ ﮔﻞ ﮐﺮﺩﻭ۔ ﮨﻢ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺩﮐﮭﺎﻭﮮ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﭼﻼﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻟﮯ ﮔﺎ“ ۔
ﺍﻡ ﺳﻠﯿﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﻣﮩﻤﺎﻥ ﯾﮩﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎ
ﮐﮭﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺍﮔﮭﺮ ﻓﺎﻗﮯ ﺳﮯ ﭘﮍﺍ
ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺑﻮ ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺭﺳﻮﻝ
ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﺒﺴﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺭﺍﺕ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺲ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮﮎ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﺁﺋﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﮦ
ﺁﯾﺖ ﺗﻼﻭﺕ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺳﯽ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺗﺮﺟﻤﮧ ” : ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ) ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﮐﻮ( ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ
ﻣﻘﺪﻡ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﻮﺍﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ ﻧﮧ ﮨﻮ“ ﺍﺱ
ﻃﺮﺡ ﺍﺑﻮ ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ
ﺍﯾﺜﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺭﮨﺘﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﮏ ﮐﻼﻡ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺛﺒﺖ
ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
post has been copied from facebook
click here to visit us on facebook