Tuesday, 23 July 2013

توجہ


ایک متمول کاروباری شخص اپنی نئی جیگوار کار پر سوار سڑک پر رواں دواں تھا کہ دائیں طرف سے ایک بڑا سا پتھر اُسکی کار کو آ ٹکرایا۔ اُس شخص نے کار روک کر ایک طرف کھڑی کی اور تیزی سے نیچے اُتر کر کار کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھنا چاہا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ پتھر مارا کس نے تھا!           پتھر لگنے والی سمت میں اُسکی نظر گلی کی نکڑ پر کھڑے ایک لڑکے پر پڑی جس کے چہرے پر خوف اور تشویش عیاں تھی۔ آدمی بھاگ کر لڑکے کی طرف لپکا اور اُسکی گردن کو مضبوطی سے دبوچ کر دیوار پر لگاتے ہوئے پوچھا؛ اے جاہل لڑکے، تو نے میری کار کو پتھر کیوں مارا ہے؟ جانتے ہو تجھے اور تیرے باپ کو اِسکی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ لڑکے نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے اُس آدمی کو دیکھتے ہوئے بولا؛ جناب میں نے جو کُچھ کیا ہے اُسکا مجھے افسوس ہے۔ مگر میرے پاس اسکے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ میں کافی دیر سے یہاں پر کھڑا ہو کر گزرنے والے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی بھی رُک کر میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ لڑکے نے آدمی کو گلی کے وسط میں گرے پڑے ایک بچے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے بتایا؛ وہ میرا بھائی ہے جو فالج کی وجہ سے معذور اور چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔ میں اِسے پہیوں والی کُرسی پر بِٹھا کر لا رہا تھا کہ سڑک پر پڑے ایک چھوٹے گڑھے میں پہیہ اٹکنے سے کُرسی کا توازن بگڑا ا ور وہ نیچے گر گیا۔ میں نے کوشش تو بہت کی ہے مگر اتنا چھوٹا ہوں کہ اُسے نہیں اُٹھا سکا۔ میں آپکی منت کرتا ہوں کہ اُسے اُٹھانے میں میری مدد کیجیئے ۔ میرے بھائی کو گرے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے اِسلئے اب تو مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے۔۔۔ اِس کے بعد آپ کار کو پتھر مارنے کے جُرم میں میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں گے میں حاضر ہونگا۔ آدمی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، فورا اُس معذور لڑکے کی طرف لپکا، اُسے اُٹھا کر کرسی پر بٹھایا، جیب میں سے اپنا رومال نکال کر لڑکے کا منہ صاف کیا، اور پھر اُسی رومال کو پھاڑ کر ، لڑکے کو گڑھے میں گر کر لگنے والوں چوٹوں پر پٹی کی۔۔

اسکے بعد لڑکے نے آدمی سے پوچھا؛ جی جناب، آپ اپنی کار کے نقصان کے بدلہ میں میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟

آدمی نے مختصر سا جواب دیا؛ کچھ بھی نہیں بیٹے، مجھے کار پر لگنے والی چوٹ کا کوئی افسوس نہیں ہے۔

آدمی اُدھر سے چلا تو گیا مگر کار کی مرمت کیلئے کسی ورکشاپ کی طرف نہیں، کار پر لگا ہوا نشان تو اُس نے اِس واقعہ کی یادگار کے طور پر ویسے ہی رہنے دیا تھا، اِس انتظار کے ساتھ کہ شاید کوئی اور مجبور انسان اُس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اُسے ایک پتھر ہی مار دے۔

Monday, 22 July 2013

انگور اور شراب



انگور اور شراب:
------------------
فرانس میں کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نےایک ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔ اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔

اتفاق سے اُن کی نشست کمشنر کے بالکل سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جب کہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا۔

اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟ شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنی ناک سے کھا رہا ہوں؟ کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟

شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟ شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔ کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُس کی بیوی اور بائیں طرف اُس کی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دین داری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لیے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طم طراق سے اپنے لیے، اپنی بیوی اور بیٹی کے لیے گلاسوں میں اُنڈیلی۔

اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟ شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں۔ کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے! ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورت حال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔

مگر اس شیخ صاحب کے نہ تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نہ ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔ کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے

شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟ مصنف لکھتا ہے کہ اس کے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

(کتاب شوام ظرفاء)

Muzammil

Sunday, 21 July 2013

ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﮐﻮﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﻘﺪﻡ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﻮﺍﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ ﻧﮧ ﮨﻮ


ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﮨﮯ، ﮐﭽﮫ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺫﮐﺮ ﻭ ﺍﺫﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﮨﯿﮟ، ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ،ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺨﺘﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻘﻮﺵ ....
ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ” ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ“ ﻣﯿﮟ
ﻣﻔﻠﺲ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﺯﺩﮦ ﮨﻮﮞ۔ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ
ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ، ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻤﺒﯿﺮ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ”ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﺁﺅ “ ﻭﮦ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺟﺎﺗﺎ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ
ﻗﺴﻢ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺣﻖ ﺩﮮ ﮐﺮ
ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺟﺲ
ﺑﺎﺑﺮﮐﺖ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻓﻼﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﻄﮩﺮﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﺐ
ﺍﺯﻭﺍﺝ ﻣﻄﮩﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮩﯽ
ﮨﮯ۔ ” ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﮐﻮ ﺣﻖ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ
ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ “۔
ﻧﻮﻭﺍﺭﺩ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﺪﻧﯽ ﮨﮯ، ﺍﻓﻼﺱ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﻗﮧ ﮐﺸﯽ ﺳﮯ
ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺍﺱ ﭘﺎﮎ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ
ﺗﻨﮓ ﺩﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺘﺎﺟﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻠﺠﺎ ﻭ ﻣﺎﻭﯼٰ ﮨﮯ، ﺍﺱ
ﺗﺎﺟﺪﺍﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺑﺲ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ
ﻧﺎﻡ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺗﻨﯽ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ
ﺗﻮ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯽ، ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﯼ
ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﮐﺎ ﺩﻭﺩﮪ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ ﺑﭽﮯ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ
ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ
ﭘﮭﯿﻼﺋﮯ، ﺟﻦ ﮐﺎ ﺟﻮﺩﻭﮐﺮﻡ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮯ ﭘﺎﯾﺎﮞ ﮨﮯ،
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻓﯿﺾ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﮐﭩﮭﻦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ،
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﭘﺮ ﺷﺮﻡ ﺁﻧﮯ
ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ
ﮨﮯ، ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺳﮯ ﺁﻗﺎﺋﮯ ﻧﺎﻣﺪﺍﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ
ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
”ﺁﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﻣﯿﺰﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ؟“ ﺍﺑﻮ
ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ”ﺍﮮ
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ“ ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻡ ﺳﻠﯿﻢ
ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ” ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ؟
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺋﮯ
ﮨﯿﮟ“ ۔ ﺍﻡ ﺳﻠﯿﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ” ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ“ ۔
ﺍﺑﻮ ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ” ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﺩﻭ ﺍﻭﺭ
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭼﻦ ﮐﺮ ﭼﺮﺍﻍ ﮔﻞ ﮐﺮﺩﻭ۔ ﮨﻢ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺩﮐﮭﺎﻭﮮ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﭼﻼﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻟﮯ ﮔﺎ“ ۔
ﺍﻡ ﺳﻠﯿﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﻣﮩﻤﺎﻥ ﯾﮩﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎ
ﮐﮭﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺍﮔﮭﺮ ﻓﺎﻗﮯ ﺳﮯ ﭘﮍﺍ
ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺑﻮ ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺭﺳﻮﻝ
ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﺒﺴﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺭﺍﺕ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺲ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮﮎ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﺁﺋﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﮦ
ﺁﯾﺖ ﺗﻼﻭﺕ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺳﯽ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺗﺮﺟﻤﮧ ” : ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ) ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﮐﻮ( ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ
ﻣﻘﺪﻡ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﻮﺍﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ ﻧﮧ ﮨﻮ“ ﺍﺱ
ﻃﺮﺡ ﺍﺑﻮ ﻃﻠﺤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ
ﺍﯾﺜﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺭﮨﺘﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﮏ ﮐﻼﻡ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺛﺒﺖ
ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
post has been copied from facebook
click here to visit us on facebook

فوج تنخواہ لیتی ہے مُفت تو کُچھ نہیں کرتی، عزت کیوں دیں ہم فوج کو؟


            visit us on facebook : click here to see My World on facebook 

الطاف حسین کی گرفتاری متوقع


منی لانڈرنگ کیس: لندن پولیس کو ثبوتوں پر مبنی انتہائی اہم شہادت مل گئی،اہم شخصیت کی باضابطہ گرفتاری متوقع

منی لانڈرنگ کیس میں میٹرو پولیٹن پولیس کو ایک انتہائی اہم شہادت مل گئی ہے یہ شہادت ثبوتوں پر مبنی ہے جبکہ گزشتہ روز میٹرو پولیٹن پولیس کی طرف سے گرفتار ہونیوالے ایک ملزم سے پولیس کو انتہائی اہم معلومات ملی ہیں جن میں مالی معاملات ‘ بنک اکاﺅنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کے متعلق دیگر انتہائی اہم شواہد موجود ہیں۔ پولیس نے تمام ثبوت اپنے قبضہ میں لے لیے ہیں جبکہ بتایا گیاکہ یہ تمام ثبوت منی لانڈرنگ کیس میں اہم پیش رفت ثابت ہو سکتے ہیں اور ملزم کو تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی پر چپ لگا کر چھوڑ دیا گیا ہے ۔بدھ کو گرفتار ہونے والے اس ملزم نے پولیس کو بتایا ہے کہ وہ اس منی لانڈرنگ کیس میں میٹرو پولیٹن پولیس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس شخص کا نام تو معلوم نہیں ہو سکا مگر یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہے ۔علاوہ ازیں منی لانڈرنگ کیس میں میٹرو پولیٹن پولیس آئندہ 72گھنٹوں کے دوران ایک انتہائی اہم شخصیت کو باضابطہ طور پر گرفتار کر لے گی اوراس سلسلہ میں پولیس نے تمام ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں اور ایک ڈاکو منٹری تیار کر کے کراﺅن پراسیکیوشن سروس کو فراہم کر دی گئی ہے ۔برطانوی ذرائع ابلاغ نے اس امر کا انکشاف کیا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم دورہ پاکستان کے بعد برطانوی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان انتہائی خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد سے الطاف حسین کے بارے میں برطانوی پولیس کی تحقیقات کی پیش رفت سے آگاہ کیا اور ان سے تعاون کی اپیل کی۔ چوہدری نثار احمد نے برطانوی وزیر خارجہ کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور وزارت داخلہ کی طرف سے پوری حمایت کا یقین دلایا اورباور کیاجا رہا ہے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ی کے بعد ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے بارے میں بھی پیش رفت کی جائیگی ۔اے پی ایل برطانیہ کے صدر مسٹر امجد ملک نے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں 14سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور اگر اس کیس میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے خود کو بے گناہ تصور کرنے کے لیے زور لگایا اور عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ وہ ناٹ گلٹی ہیں تو کیس کا فیصلہ ہونے میں چند ماہ لگ سکتے ہیں اور اگر الطاف حسین اس کیس میں گناہ گار ثابت ہوئے تو کیس کے تمام اخراجات اور ججوں کی تنخواہیں الطاف حسین کو ادا کرنا پڑینگی ۔یادرہے کہ برطانوی پولیس تمام شواہد اکٹھے ہونے سے پہلے کسی کومشتبہ قراردیکر حراست میں لیتی ہے اور نہ ہی اُس کی شناخت ظاہر کی جاتی ہے۔

( POST HAS BEEN COPIED )

ہم پاکستانی

معزز قارئین! ہم پاکستانیوں‌کی دنیا بھر میں چند مخصوص علامات ہیں جن سے ہم بخوبی پہچانے جاتے ہیں۔ نیچے کچھ علامات درج ہیں۔ اتفاق یا اختلاف ہو تو ضرور آگاہ کیجئے گا۔ نیز ان علامات میں اضافہ کرنا ایک قومی خدمت تصور ہوگا۔  

* ہم پاکستانی۔ دعوتی کارڈوں پر "پابندی وقت" کی تاکید کے باوجود مقررہ وقت سے بغیر شرمندہ ہوئے 2 گھنٹے لیٹ پہنچنا بالکل نارمل سمجھتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ گفٹ پیپرز، گفٹ بکس حتی کہ ایلومینئم پیپرز بھی کئی کئی بار استعمال کرتے ہیں۔ 

* ہم پاکستانی ۔ ایر پورٹ پر اکثر بڑے بڑے سوٹ کیسوں اور چیک-ان کاونٹر پر اوور ویٹ کے جھگڑے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں

* ہم پاکستانی ۔ اپنے بچوں کے نام ایک ہی وزن پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے نسیم، ندیم، کلیم، سلیم، یا شازیہ، نازیہ، ماریہ وغیرہ

* ہم پاکستانی ۔ (پاکستان میں) ہارن بجانا منع والی جگہ پر ضرور ہارن بجا رہے ہوں گے۔

* ہم پاکستانی ۔ کسی کے گھر مہمان جائیں تو مقصد آمد پورا ہوجانے کے بعد میزبان سے اجازت لےکر رخصت ہو تے وقت میزبان کے گھر کے دروازے پر گھنٹہ بھر کھڑے ہو کر باتیں کرتے رہتے ہیں

* ہم پاکستانی ۔ موٹرسائیکل یا کار یا کسی بھی گاڑی پر اوورلوڈنگ ضرور کرتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ نئی چیز گھر میں لانے کے بعد کئی مہینوں تک اسکا کوور نہیں اتارتے۔

* ہم پاکستانی ۔ بہت ساری کراکری استعمال کی بجائے صرف شیلفوں یا الماریوں‌میں رکھ چھوڑتے ہیں۔

* ہم پاکستانیوں کے کچن ایسی بوتلوں، جار یا پلاسٹک برتنوں سے بھرے ہوتے ہیں جو ہمیں کسی خریداری کے ساتھ فری ملتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ پکنک یا آؤٹنگ پر جاتے ہوئے کھانا کہیں باہر سے کھانے کی بجائے دیگچے یا ٹفن ساتھ لے جاتے ہیں

* ہم پاکستانی ۔ شادی ، سالگرہ وغیرہ پر ملے ہوئے تحفے، کپڑے وغیرہ آگے تحفہ دے دیتے ہیں۔

* ہم پاکستانیوں کسی قطار میں کھڑے ہوکر انتظار کرنا موت نظر آتا ہے

* ہم پاکستانی اگر دوستوں کے ساتھ ریسٹورنٹ یا کافی ہاؤس پر جائیں تو بل ادائیگی کے وقت اکثر ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی لڑائی کرتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ کوکنگ کرتے وقت بہت کم ماپ استعمال کرتے ہیں

* ہم پاکستانی ۔ اگر ہمارے ابو کسی اجنبی کے ساتھ دومنٹ بات کرلیں تو ہم اسے فورا اپنا انکل بنا لیتے ہیں ۔

* ہم پاکستانی ۔گھروں‌کے صوفوں پر اکثر بیڈ شیٹ چڑھا کررکھتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ ریمورٹ کنٹرول پر اکثر پلاسٹک یا ٹیپ چڑھا کر رکھتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ خریداری کرتے وقت ہمیشہ بھاؤ کم کروانے کی کوشش (بحث) کرتے ہیں

* ہم پاکستانی ۔گفتگو کے دوران اگلے کی بات غور سے سننے کی بجائے اپنی باری کا شدت سے انتظار کرتے ہیں تاکہ اپنی رائے اگلے پر ٹھونسی جاسکے۔

* ہم پاکستانی ۔دنیا کے ہر مسئلے پر رائے زنی کو تیار رہتے ہیں لیکن عملی فیصلے کے وقت کنفیوزڈ ہو جاتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ شاپنگ پر جاتے ہوئے بڑا بیگ لےجانے کی بجائے نصف درجن بھرے ہوئے شاپرز اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

* ہم پاکستانی ۔ دوست احباب یا رشتہ داروں کو رات گئے بھی فون کرنے میں‌ہچکچاہٹ نہیں کرتے اور معذرت کرکے پوری بات کرگذرتے ہیں ۔

* ہم پاکستانی ۔ دنیا بھر کے سیاسی نظاموں‌کی خامیوں پر تنقید کرتے ہیں مگر اپنے نظام کو کوسنے کے باوجود بدلنے پر تیار نہیں ہوتے۔

نوٹ ۔ ان علامات کو محض تفنن طبع کے طور پر لیا جائے۔ شکریہ ۔
کیونکہ ہم سب ہی پاکستانی ہیں ۔

ہمیں فخر ہے پاکستانی ہونے پر۔۔۔ 

بشکریہ: اردو ناول

Proud to be a Pakistani
Muzammil

Saturday, 20 July 2013

سلام کے متعلق قُرآنی آیات









ستار العُیوب ۔ اللہ انسان کے گُناہوں پر پردے ڈالتا ہے


رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِيْ صَغِيْرَا

رِزق




سڑک کے کنارے کھمبے پر چپکے کاغذ پر لکھا ہوا تھا
میرے پچاس روپے گم ہو گئے ہیں، جس کو ملیں وہ میرے گھر واقع فلاں گلی پہنچا دے، میں ایک بہت ہی غریب اور بوڑھی عورت ہوں، میرا کوئی کمانے والا نہیں، روٹی خریدنے کیلئے بھی محتاج رہتی ہوں۔
ایک آدمی نے یہ تحریر پڑھی تو وہ کاغذ پر لکھے ہوئے پتے پر پہنچانے چلا گیا۔
جیب سے پچاس روپے نکال کر بُڑھیا کو دیئے تو وہ پیسے لیتے ہوئے رو پڑی۔
کہنے لگی: بیٹے آج تم بارہویں آدمی ہو جسے میرے پچاس روپے ملے ہیں اور وہ مجھے پہنچانے چلاآیا ہے۔
آدمی پیسے دیکر مسکراتے ہوئے جانے لگا تو بُڑھیا نے اُسے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا:
بیٹے، جاتے ہوئے وہ کاغذ جہاں لگا ہوا ہے اُسے پھاڑتے جانا
کیونکہ ناں تو میں پڑھی لکھی ہوں اور ناں ہی میں نے وہ کاغذ اُدھر چپکایا ہے۔

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ
اور آسمان میں تمہارا رِزق )بھی( ہے اور وہ )سب کچھ بھی( جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے.

سلطان نور الدین زنگی


سلطان نور الدین زنگی عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا میرے نبی صلی اللہ علیھ والہ وسلم کو کون ستا رہا ہے .آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھا اور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں. اب سلطان کو قرار کہاں تھا،انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا. مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے ور جانے کے تمام راستے بند کرواے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا. اب لوگ آ رہے تھے ور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں .جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں . تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقی میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں. سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے. انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء.کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا. آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی. آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیھ والہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے، یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی .آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں. حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ نصرانی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں. سلطان یہ سن کر رونے لگے ، اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں. سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ"میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا".
اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ، سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آے .سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا. سیسے کی یہ خندق آج بھی روضہ رسول صلی اللہ علیھ والہ وسلم کے گرد موجود ہے

riksha driver


میں ایک دن گھر سےکسی کام کیلئے نکلا ۔ رکشہ لیا اور منزلِ مقصود کی طرف چل پڑا ۔ رکشہ شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتا جا رہا تھا کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک رکشہ کے سامنے آ گئی ۔ رکشہ ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے رکشہ کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا ۔

بجائے اس کے کہ گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔
کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ رکشہ ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا کیونکہ غلطی اس کار والے کی تھی لیکن رکشہ ڈرائیور نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا ۔
میں نے رکشہ ڈرائیور سے کہا “ انکل اُس نے تو آپکے رکشے کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور آپ نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا ؟”
رکشہ ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں اور کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں پر بھی یہ گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنے اُوپر بُرا اثر لئے بغیر گذر جانا چاہیئے ۔ ورنہ آپ بھی اُس سے لی ہوئی گندگی اپنے ساتھیوں پر اُنڈیلنے لگیں گے ۔ “اور میں حیرانی سے اس رکشہ ڈرائیور کی طرف دیکھنے لگی جس نے اتنی آسانی سے مجھے اتنی بڑی بات سمجھا دیخود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریںcopied column